بم دھماکہ
) اُن مظلوم اور معصو م جانوں کے نام جو اِن دھماکوں کی نظر ہو گئے اور اپنے پیچھے نہ جانے کِتنے لوگوں کو روتا اور سِسکتا ہوا چھوڑ گئے (
سیّد ضیاء خیرا بادی
اٹلانٹا )جار جیا (
نظم
میری جو پڑی اخبار پر نظر
اُسکی سُر خیوں میں لِکھا ہوا تھا یہ
’’ بم دھماکے میں مر گئے سیکڑوں لوگ ‘‘
کِتنا جاں سوز سا نحہ تھا یہ
واقع کی جُستجو میں میں پہنچا وہ مقام
وہ شام بڑی اُداس تھی غمگین تھی وہ شام
لاشوں کے ڈھیر تھے جہاں تک نظر گئ
غم کی ایک تیغ مرے دِل میں اُتر گئ
ملبے کے ڈھیر میں تھیں لا شیں پھنسی ہویئں
تھیں بو ڑھی عورتوں کی آنکھیں دھنسی ہویئں
ماں باپ کی لاشوں پر بچّوں کی سِسکیاں
مُمکِن نہیں ہے الفاظ میں اِس ذِکر کا بیاں
تارے جو زمین کے تھے چکنا چور ہوگئے
ماں باپ اپنے بچّوں سے بہت دور ہو گئے
ایک ننھی بچّی لِپٹی ہوئ تھی باپ کی لاش سے
اَ بّا ا َبّا چِلّا رہی تھی دلِ پاش پاش سے
اِس حادثے میں کِتنے گھروں کے سہارے چلے گئے
اِس حادثے میں کِتنی ماؤں کے پیارے چلے گئے
کُچھ بوڑھی آنکھوں کے بُجھ گئے تھے چراغ
دِل میں جل اُٹھے تھے اُن کے سیکڑوں داغ
کچھ نیئ دُلہنوں کے لُٹ گئے تھے سُہاگ
اُن کے ارمانوں کو ڈس گئے تھے کالے ناگ
قیمہ ہوگئے تھے جِسم اُٹھائے نہ جا سکے
دفنانے سے پہلے نہلائے نہ جاسکے
بے غُسل و کفن اِنسانی لاشوں کی گٹھر یاں
اُٹھا کر لے جا رہیں تھیں سرکاری گاڑیاں
ہر طرف آہ و بکا تھی چیخ و پُکار تھی
گھر گھر سے آرہی یہ صدا بار بار تھی
ہر جا پڑی تھیں لاشیں اور بہہ رہا تھا خون
ظالِم کے ظُلم کی داستاں کہہ رہا تھا خون
میرا وجود لرز گیا اس منظر کو دیکھ کر
اِنسانی خون کے بہتے سمندر کو دیکھ کر
آسماں رو رہا تھا زمیں رو رہی تھی
آنکھیں رو رہیں تھیں جبیں رو رہی تھی
جو مر گئے تھے اُن کی غمی رو رہی تھی
جو زندہ تھے اُن پر زندگی رو ر ہی تھی
میں لوٹ کر وہاں سے اپنے گھر آگیا
آنکھوں میں میرے وہ منظر سما گیا
دیکھوں جِدھر بھی میں وہ منظر نظر میں ہے
خونِ اِنساں کا وہ سمندر نظر میں ہے
اِنسان کا اب اِنسان سے کوئ رِشتہ نہیں رہا
محبّت اور خلوص اِس دور میں باقی نہیں رہا
ہر جا ایک بھیڑ ہے ایک اِنتشار ہے
اخباروں میں ایسی خبروں کا ایک انبار ہے
یہ خوبصورت چمن جِس کا دُنیا نام ہے
جہنم بنا رکھا ہےکیا یہ اِنساں کا کام ہے؟
No comments:
Post a Comment