Saturday, April 30, 2011

Syed Zia Khairabadi's poem "Woh Nazren" dedicated to his mother Syeda Sarfaraz Fatima Nashtar Khairabadi


Syeda Sarfaraz Fatima Nashtar Khairabadi
Happy Mother's Day
Syed Zia Khairabadi
Atlanta Georgia USA
وہ نظریں
 [اپنی  شفیق ماں سیّدہ سرفراز فاطمہ نشتر خیرابادی کی اُن محبّت اور شفقت بھری نظروں کے نام جو شاید آج بھی میراتعاقُب کرتی ہیں]

میری جا نِب کو تکتی ہوئ وہ مُحبّت کی نظریں
اپنی قُربت کا مُجھے اِحساس دِلا دیتی ہیں
رات  جو  اُٹھ جاوں اچانک کِسی  خُواب کے ڈر سے
میٹھی لوری  سی سنُا کر مُجھے پِھر  سُلا دیتی ہیں

وہ نظریں میرے درد کا مسیحا بن کر
میرے دِل کو میری روح کو  جِلا دیتی ہیں
گربھٹک جاوں  کِسی راہ  میں چلتے چلتے
وہ نظریں مُجھے منزل کا پتہ دیتی ہیں

دُور   ہو کر بھی ہر وقت میرے پاس ہیں وہ
دشِت مایوسی میری اُمید ہیں میری آس ہیں وہ
اُنکی قُربت کا  مُجھے ہر لمحہ گُماں ہوتا ہے
بہِر شفقت ہے جو اُن نظروں سے عیاں ہوتا ہے

وہ نظریں ہر وقت میرے دِل پہ اثر کرتی ہیں
مُجھ سے پتّھر کو وہ لال و گُہر کرتی ہیں
مُجھ پے برساتی ہیں اپنی مُحبّت کی بارش
دامِن زیست کو اپنی شفقت سے وہ تر کرتی ہیں

میری دُنیاں میرا عُقبا مادرِ آغوش رہی
زندگی میری ہر غم سے  سُبکدوش رہی
تیرگی میں مِلی  مُجھ کو ضیائے شفقت
زندگی درد کے آنگن سے روپوش رہی

یاد  آتا ہے مُجھے بچپن سے جوانی کا سفر
میرے قدموں کو تکا کرتی تھی اُن کی نظر
دیر ہو جائے اگر راہ میں کِسی بھی و جہہ
اپنی آغوش میں سما لیتی تھیں وہ دیدوتر

اُنکی یادوں کا ایک سایہ دار شجر
اپنےکاندھوں پر  اُٹھائے ہوئے مُحبّت  کے ثمر
دِل کے آنگن میں پنپا ہے پھلا پھولا ہے
دِل بِسمل اُن نظروں کو کہاں بھولا ہے

چاند کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ماں ہے شاید
چاندنی آنکھوں کو میرے بہت بھلی لگتی ہے
جب بھی ہوتا ہے تنہائ کا اِحساس مُجھے
ماں کی گود   ستِارں  سے سجی لگتی ہے

چاند اپنی طرف بُلاتا ہے  مجُھے ماں کی طرح
چاندنی باہیں پھیلائے بڑھتی ہے مُجھے چھُونے کو
ایک سر گو شی سنُائ دیتی ہے  کہیں پاس میرے
آجا بیٹا کہ میں آئ ہوں تُجھے لینے کو

ہاتھ کا لمس مِرے ہاتھ  پے ہوتا ہے کُچھ ایسا
آنکھ کھُل جائے حقیقت میں گر یہ  خواب ہو کوئ
وہ سرگوشی، وہ باہیں، وہ شفقت، وہ نظریں
ایسا لگتا ہے یہ حقیقت میں مُلاقات ہو  کو ئ

وہ  نظریں اب بھی میری آنکھوں میں
گھومتی پِھرتی ہیں   مسُکراتی ہیں
وہ آوازیں  اب بھی میرے کانوں میں
گونجتی ہیں دِل کے تاروں کو جھنجھناتی ہیں

اور میں راتوں میں پچھلے پہر اُٹھ کر
بے قراری کے سمندر میں خود کو غرق پاتا ہوں
آنسووں سے بھِگوتا ہوں اپنے دامن کو
اور چپکے سے صحرا میں نِکل جاتا ہوں

میرا ہاتھ تھام کر میری پیشانی پہ بوسہ دے کر
وہ نظریں مُجھے اپنے ہمراہ گھر لا تی ہیں
اپنی آغوش میں چھُپاکر میرا ننھا سا وُجود
وہ نظریں مُجھے غِم دوراں کی نظروں سے بچا لیتی ہیں
سیّد ضیاء خیرابادی

1 comment:

Ahmad Ali Barqi Azmi said...

آپ کی مادر کے ہوں درجات جنت میں بلند
ان پہ نازل ہو وہاں پر رحمت پروردگار
احمد علی برقی اعظمی