غزل
نشتر خیرابادی
جِس کے دِل پر یہ لگی جان سنبھالی نہ گئی
چشِم جاناں کبھی گولی تِری خالی نہ گئی
نام دُنیا میں مُحبّت کا نِکا لا میں نے
آپ سے ایک تمنّا بھی نِکالی نہ گئی
خونِ نا حق کا اثر اِس سے سِوا کیا ہوگا
قتل کرکے بھی تِری آنکھ کی لالی نہ گئی
بِجلیاں سُوے قفس آیئں گیئں سو سو بار
بننے کو شاخِ قفس پھو لوں کی ڈالی نہ گئی
رات دِن زُلفِ پر یشاں کا تصوّر ہے تجھے
ہائے نشتر تِری آ شفتہ خیالی نہ گئی
No comments:
Post a Comment